آج میرے بیٹے کے نکاح میں آئیے گا _” صبح آفس جاتے ہوئے راستے میں سالم صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دعوت دی _
“رمضان میں نکاح؟” میں نے استفہامیہ انداز میں کہا _
” ہاں ، کیا ہوا؟ کیا رمضان میں نکاح نہیں ہوسکتا؟ “
” کیوں نہیں ہوسکتا ؟ لیکن لوگ کرتے نہیں _” میں نے کہا _
سالم صاحب ماہ نامہ زندگی نو کے منیجر ہیں _ بی یو ایم ایس کی ڈگری رکھتے ہیں ، لیکن پریکٹس کبھی نہیں کی _ ان سے تعلق کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ وہ سابق ایڈیٹر سہ روزہ دعوت و عربی جریدہ الدعوۃ مولانا سلمان ندوی کے صاحب زادے ہیں _ سالم صاحب کا بیٹا انجینیرنگ کرنے کے بعد آج کل جاب میں ہے _ کچھ عرصے سے وہ اس کے نکاح کے لیے فکرمند تھے _ مجھ سے بھی کئی بار کہہ چکے تھے کہ کسی اچھے اور دین دار رشتے کی نشان دہی کروں _ آج جب معلوم ہوا کہ اس کا رشتہ طے ہوچکا ہے تو بڑی خوشی ہوئی _
آفس پہنچا تو پروفیسر خالد حامدی صاحب کا فون آیا : ” آج ظہر کی نماز کے بعد میری بیٹی کا نکاح ہے _ اس میں تشریف لائیے گا _”
” سالم صاحب کے بیٹے سے؟” میں نے سوال کیا _
“جی”
خالد حامدی صاحب بھی مجھ سے محبت کرنے والوں میں سے ہیں _ بڑی شفقت فرماتے ہیں _ کسی حدیث کی تحقیق کرنی ہو ، جماعت کے لٹریچر میں کسی غلطی کی نشان دہی کرنی ہو یا اور کوئی کام ہو ، فوراً فون کرتے ہیں _
دونوں طرف سے دعوت ہو تو میرا حاضر ہونا ضروری تھا _ تقریبِ نکاح مرکزِ جماعت اسلامی ہند سے قریب چار مینار مسجد میں ہونی تھی _
مولانا نسیم احمد غازی نے نکاح پڑھایا _ انھوں نے خطبۂ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات اور احادیث کی عمدہ اور دل نشیں تشریح کی _ نکاح کے بعد دولہا کی طرف سے چھوہارہ والی پُڑیا تقسیم کردی گئی _ اللہ اللہ خیر سلّا _ نکاح ہوگیا _
معلوم ہوا کہ افطار کے بعد دلہن کی رخصتی ہونی تھی تو خالد حامدی صاحب نے کہا کہ کسی کو آنے کی ضرورت نہیں ، میں اپنی بیٹی کو خود ہی پہنچا دوں گا _ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں اور میرے ساتھ جو لوگ آئیں گے وہ کھانا نہیں کھائیں گے _
” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ دلہن کے ساتھ جو لوگ آئیں وہ بغیر کھانا کھائے واپس چلے جائیں؟ “
” ہاں اگر کھانے کو ولیمہ کی شکل دے دی جائے تو ہم کھا سکتے ہیں _ اس لیے کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا سنّت ہے _ ” خالد صاحب نے کہا _
” لیکن ولیمہ تو رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد اگلے دن کیا جاتا ہے _” دولہا والوں نے اشکال ظاہر کیا _
” ولیمہ خوشی کا اظہار ہے _ اگرچہ معمول شبِ زفاف کے بعد کا ہے ، لیکن نکاح کے بعد کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے _”
بس کیا تھا؟ افطار کے بعد ولیمہ طے کردیا گیا _ خالد صاحب چند قریبی رشتے داروں کے ساتھ بیٹی کو لے کر گئے ، ولیمہ کھایا اور واپس آگئے _
خالد حامدی صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں شعبۂ عربی میں پروفیسر ہیں _ صدرِ شعبہ بھی رہ چکے ہیں _ جاہ و منصب کے مالک ہیں _ وہ چاہتے تو بہت دھوم دھام سے اپنی بیٹی کا نکاح کرسکتے تھے ، لیکن انھوں نے سادگی کو ترجیح دی _ انھوں نے اپنی بیٹی کو زیورات ضرور دیے ہوں گے ، لیکن اس کی نمائش نہیں کی _ دولہا والے بھی قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے دین دار رشتہ تلاش کیا اور سماجی رسوم کے مطابق مطالبات نہیں کیے _ اس طرح بہت سادگی کے ساتھ یہ نکاح ہوگیا _ معلوم ہوا کہ مولانا سلمان ندوی نے بھی خود سالم صاحب کا نکاح اسی طرح سادگی سے کردیا تھا _
آج کل ، جب کہ نکاح ، چاہے لڑکے کا ہو یا لڑکی کا ، بڑی دھوم دھام سے کیا جاتا ہے اور لاکھوں روپے لُٹائے جاتے ہیں ، ضرورت ہے کہ آسان نکاح کو فروغ دیا جائے اور اس کے نمونے پیش کیے جائیں _
( محمد رضی الاسلام ندوی )
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.