Friday 10 July 2020

آسان نکاح کا مثالی نمونہ

آج میرے بیٹے کے نکاح میں آئیے گا _” صبح آفس جاتے ہوئے راستے میں سالم صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دعوت دی _

   “رمضان میں نکاح؟” میں نے استفہامیہ انداز میں کہا _

   ” ہاں ، کیا ہوا؟ کیا رمضان میں نکاح نہیں ہوسکتا؟

     ” کیوں نہیں ہوسکتا ؟ لیکن لوگ کرتے نہیں _” میں نے کہا _


        سالم صاحب ماہ نامہ زندگی نو کے منیجر ہیں _ بی یو ایم ایس کی ڈگری رکھتے ہیں ، لیکن پریکٹس کبھی نہیں کی _ ان سے تعلق کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ وہ سابق ایڈیٹر سہ روزہ دعوت و عربی جریدہ الدعوۃ مولانا سلمان ندوی کے صاحب زادے ہیں سالم صاحب کا بیٹا انجینیرنگ کرنے کے بعد آج کل جاب میں ہے _ کچھ عرصے سے وہ اس کے نکاح کے لیے فکرمند تھے _ مجھ سے بھی کئی بار کہہ چکے تھے کہ کسی اچھے اور دین دار رشتے کی نشان دہی کروں _ آج جب معلوم ہوا کہ اس کا رشتہ طے ہوچکا ہے تو بڑی خوشی ہوئی _

         آفس پہنچا تو پروفیسر خالد حامدی صاحب کا فون آیا : ” آج ظہر کی نماز کے بعد میری بیٹی کا نکاح ہے _ اس میں تشریف لائیے گا _”

   ” سالم صاحب کے بیٹے سے؟” میں نے سوال کیا _

   “جی

         خالد حامدی صاحب بھی مجھ سے محبت کرنے والوں میں سے ہیں _ بڑی شفقت فرماتے ہیں _ کسی حدیث کی تحقیق کرنی ہو ، جماعت کے لٹریچر میں کسی غلطی کی نشان دہی کرنی ہو یا اور کوئی کام ہو ، فوراً فون کرتے ہیں _

         دونوں طرف سے دعوت ہو تو میرا حاضر ہونا ضروری تھا _ تقریبِ نکاح مرکزِ جماعت اسلامی ہند سے قریب چار مینار مسجد میں ہونی تھی _

        مولانا نسیم احمد غازی نے نکاح پڑھایا _ انھوں نے خطبۂ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات اور احادیث کی عمدہ اور دل نشیں تشریح کی _ نکاح کے بعد دولہا کی طرف سے چھوہارہ والی پُڑیا تقسیم کردی گئی _ اللہ اللہ خیر سلّا _ نکاح ہوگیا _

       معلوم ہوا کہ افطار کے بعد دلہن کی رخصتی ہونی تھی تو خالد حامدی صاحب نے کہا کہ کسی کو آنے کی ضرورت نہیں ، میں اپنی بیٹی کو خود ہی پہنچا دوں گا _ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں اور میرے ساتھ جو لوگ آئیں گے وہ کھانا نہیں کھائیں گے _

          ” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ دلہن کے ساتھ جو لوگ آئیں وہ بغیر کھانا کھائے واپس چلے جائیں؟

       ” ہاں اگر کھانے کو ولیمہ کی شکل دے دی جائے تو ہم کھا سکتے ہیں _ اس لیے کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا سنّت ہے _ ” خالد صاحب نے کہا _

     ” لیکن ولیمہ تو رخصتی اور شبِ زفاف کے بعد اگلے دن کیا جاتا ہے _” دولہا والوں نے اشکال ظاہر کیا _

      ” ولیمہ خوشی کا اظہار ہے _ اگرچہ معمول شبِ زفاف کے بعد کا ہے ، لیکن نکاح کے بعد کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے _”

    بس کیا تھا؟ افطار کے بعد ولیمہ طے کردیا گیا _ خالد صاحب چند قریبی رشتے داروں کے ساتھ بیٹی کو لے کر گئے ، ولیمہ کھایا اور واپس آگئے _

            خالد حامدی صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں شعبۂ عربی میں پروفیسر ہیں _ صدرِ شعبہ بھی رہ چکے ہیں _ جاہ و منصب کے مالک ہیں _ وہ چاہتے تو بہت دھوم دھام سے اپنی بیٹی کا نکاح کرسکتے تھے ، لیکن انھوں نے سادگی کو ترجیح دی _ انھوں نے اپنی بیٹی کو زیورات ضرور دیے ہوں گے ، لیکن اس کی نمائش نہیں کی _ دولہا والے بھی قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے دین دار رشتہ تلاش کیا اور سماجی رسوم کے مطابق مطالبات نہیں کیے _ اس طرح بہت سادگی کے ساتھ یہ نکاح ہوگیا _ معلوم ہوا کہ مولانا سلمان ندوی نے بھی خود سالم صاحب کا نکاح اسی طرح سادگی سے کردیا تھا _

          آج کل ، جب کہ نکاح ، چاہے لڑکے کا ہو یا لڑکی کا ، بڑی دھوم دھام سے کیا جاتا ہے اور لاکھوں روپے لُٹائے جاتے ہیں ، ضرورت ہے کہ آسان نکاح کو فروغ دیا جائے اور اس کے نمونے پیش کیے جائیں _

( محمد رضی الاسلام ندوی )

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.

Success Story

  One more marriage is added in our success story